حقوق العباد کی فضیلت و اہمیت

اسلام میں حقوق العباد کی فضیلت و اہمیت 
دنیا کے ہر مذہب وملت کی تعلیمات کا یہ منشا رہا ہے کہ اس کے ماننے والے امن وسلامتی کے ساتھ رہیں تاکہ انسانی ترقی کے وسائل کو صحیح سمت میں رکھ کر انسانوں کی فلاح و بہبود کا کام  یکسوئی کے ساتھ کیا جائے۔  اسلام نے تمام انسانوں کے لیے ایسے حقوق کا تعین کیا ہے جن کا ادا کرنا آسان ہے لیکن ان کی ادائیگی میں ایثار وقربانی ضروری ہے۔
یہ بات ایک طرح کا تربیتی نظام ہے جس پر عمل کر کے ایک انسان نہ صرف خود خوش رہ سکتا ہے بلکہ دوسروں کے لئے بھی باعث   راحت بن سکتا ہے۔  حقوق کی دو اقسام ہیں ۔ حقوق اللہ اور حقوق والعباد۔  اسلام نے جس قدر زور حقوق العباد پر دیا ہے اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ ان حقوق کا کتنا بلند مقام ہے اور ان کی عدم ادائیگی کس طرح اللہ رب العزت کی ناراضگی کا سبب بن سکتی ہے۔
اسلامی تعلیمات کی روسے بندوں کے حقوق کی ادائیگی اسلامی نظم عبادت کا لازمی جزو ہے اور ان حقوق سے اعراض و پہلو تہی ایک طرف تو معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے اور دوسری طرف اللہ کی ناراضگی کا سبب۔ لہٰذا بحیثیت مسلمان ہمیں حقوق العباد کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے۔
اسلام ایک ایسا دین ہے جو خیروبرکت اور امن وسلامتی سے عبارت ہے۔ اس میں اپنے پرائے، واقف ناواقف ، بڑ ے چھوٹے  ، حاکم محکوم ، عورت مرد، ہر ایک کے حقوق کا نہ صرف یہ کہ اہتمام کیا گیا ہے بلکہ ان کی ادائیگی کو عبادت قرار دیا گیا ہے۔اس لئے اسلام عالم انسانیت کے لئے پانچ چیزوں کے تحفظ او رنگہداشت کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ حفظ نفس، حفظ مال ، حفظ عرض ،حفظ دین اور حفظ نسل ۔  ان پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ اسلام انسان کی جان اور اس کے مال، اس کی عزت، اس کے دین اور اس کی نسل کی حفاظت کا بہت اہتمام کرتا ہے۔ لہٰذا حقوق اللہ کے بعد جب ہم حقوق العباد کی بات کرتے ہیں تو اس میں ایک انسان پر دوسرے انسان کی ان پانچ چیزوں کی حفاظت لازم آتی ہے۔
انسانی معاشرت میں سب سے زیادہ اہم رکن خاندان ہے اور خاندان میں سب سے زیادہ اہمیت والدین کی ہے۔ والدین کے بعد ان سے متعلق اعزہ اقربا کے حقو ق کا درجہ آتا ہے ۔  اس کے بعد جیسے جیسے انسانی معاشرے کے تعلقات وسیع ہوتے جاتے ہیں ، ویسے ویسے انسان آفاقی ہوجاتا ہے اور کائنات میں موجود تمام مخلوقات سے اس کے خوشگوار تعلقات کی ابتدا ہوتی ہے۔  ہر ایک کے لئے جو کم سے کم  حق ہے وہ میٹھا بول ہے۔
تمام طبقات میں سے ہر ایک کے حقوق کی طویل فہرست تیار ہوسکتی ہے لیکن سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا گیا ہے وہ قول کریم اور قول معروف ہے۔ اللہ رب العزت نے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کے ساتھ جس تفصیل کا ذکر کیا ہے اس میں زبان کو بنیادی حیثیت حاصل ہے چنانچہ ارشاد فرمایا ہے : ‘‘ ان دونوں(والدین )میں سے کسی کو بھی اُف تک نہ کہو ۔ بلکہ ان سے اچھی بات کہو۔’’ان آیات کی تعلیمات پر غور فرمائیں۔
پہلے جن دو باتوں سے منع کیا گیا ہے ان کا تعلق زبان ہی سے ہے۔  زبان سے والدین کو اُف تک نہ کہو ، انہیں سخت الفاظ میں جھڑکو بھی نہیں ۔ اس کے برخلاف حکم یہ ہورہا ہے کہ ان کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرو۔  گفتگو کرو۔  نرمی بھی ایسی جس سے رحمت وشفقت ،محبت ومودت اور رحم وکرم ٹپکتا ہو۔  یہ اس لئے کہا گیا کہ بوڑھے والدین کو اس بڑھاپے میں سب سے زیادہ شیریں کلامی کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ان کی مادّی ضروریات کا تعلق ہے، وہ اگر اولاد پورا نہ بھی کرے تو رب کائنات اُن کی ربوبیت اس وقت تک کرتا رہے گا جب تک انہیں اس دُنیا میں قیام کرنا ہے۔
اولاد کے کرنے کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ صبر وتحمل سے کام لے، ان سے تنگ  نہ آئے اور ان کے بڑھاپے کے عوارض سے پریشان نہ ہوجائے بلکہ ان سے شیریں کلامی کے ذریعہ کا دل بہلائے ، اُن میں اعتماد اُمید جگائے اور اُن کی دل  بستگی کا سامان کرے۔ پروردگار عالم نے اپنے بندوں کو یہ عمومی تعلیم دی۔ ارشاد فرمایا : ‘‘ اور لوگوں کے ساتھ بھلے طریق سے بات کرو’’۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی زندگی کے کسی بھی پہلو کو غیر اہم قرار نہیں دیا۔  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ دُنیا میں مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے یعنی میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری ماں۔ صحابی نے یہی سوال تین مرتبہ دہرایا اور تینوں مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا کہ تمہارے حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق تمہاری ماں ہے۔ چوتھی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا باپ۔
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چند حقو ق ہیں۔(1) جب مسلمان بھائی سے ملے تو اُسے سلام کرے  (2) جب وہ دعوت دے تو اُسے قبول کرے (3) جب وہ خیر خواہی چاہے تو اس سے خیر خواہی کی جائے (4) جب اسے چھینک آئے اور وہ الحمد اللہ کہے تو اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہے ،اور (5) جب وہ انتقال کر جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرے۔
 حسن خلق کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ‘‘سب سے وزنی چیز جو قیامت کے دن مومن کی میزان میں رکھی جائے گی وہ اس کا حسن اخلاق ہوگا’’۔ بے شک اللہ اُس شخص کو ناپسند فرماتا ہے جو زبان سے بے حیائی کی بات نکالتا اور بدزبانی کرتا ہے۔حضرت عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ حسن  خلق کی تشریح یوں کرتے ہیں : ‘‘ اور جب وہ ملے تو ہنستے ہوئے چہرے سے ملے او رمحتاجوں پر مال خرچ کرے او رکسی کو تکلیف نہ دے۔’’
رحمت اللعالمین بندوں کے باہمی تعلقات میں بہتری اور خوشگواری لانے کے لئے اپنے پیروکاروں کو چند ایسی روحانی بیماریوں سے بچنے کی تلقین فرماتے ہیں جن سے اگر ایک انسان بچ جائے  تو اس کا وجود باعث رحمت اور اس کی ہستی موجب سکون ہوجائے۔  ارشا د نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ‘‘اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ ۔ دوسروں کے بارے میں معلومات مت حاصل کرتے پھرو،ایک دوسرے سے بغض  مت رکھو اور نہ ایک دوسرے کا کاٹ میں لگے رہو۔’’
بندوں کے حقوق کی ادائیگی سے انسان کی محرومیاں دور ہوجاتی ہیں اور باہمی محبت ویگا نگت کی فضا پیدا ہوجاتی ہے ۔  اس طرح بغض وعداوت کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہر آدمی صرف اپنے حقوق کی بات نہ کرے بلکہ فرائض کو بھی پہچانے ۔  اس طرح حقوق و فرائض کے درمیان ایک مناسب توازن برقرار رکھے تاکہ کسی  کا حق غصب نہ ہو اور کوئی فرد محرومیوں کا شکار ہوکر انتہا پسند ی کی جانب مائل نہ ہو۔

Comments

Popular posts from this blog

مطلوبہ جگہ شادی کا عمل

اسم الہی الفتاح کے خواص و تاثیرات

جمعة الوداع کا وظیفہ اور عمل